ہر کتاب کے لکھے جانے کی ایک کہانی ہے! ہر کہانی کی مانند کتاب کی کہانی کا آغاز بھی ،ایک ہی طرح سے آگے نہیں بڑھتی۔ کبھی کہانی میں آگے جاکر پتا چلتا ہے کہ جسے ابتدا میں اتفاقی بات سمجھاگیا تھا، اس کی باقاعدہ ایک منطق تھی اور وہ کہانی کے جملہ واقعات اور کرداروں کو اپنے رخ پر ڈھالتی چلی جارہی ہے۔ ایک بیج تھا، جو درخت بن رہا ہے۔ اور کبھی کہانی کا محرک اتفاقی واقعہ ، دو چارقدموں بعد،کہیں تحلیل ہوجاتا ہے اور کہانی بالکل نئے، غیر متوقع آفاق میں سرگرداں رہتی ہے؛ وہ اپنے سبب،یا اصل سے کٹ جاتی ہے۔ اس کتاب کی کہانی میں، کہانی کی یہ دونوں صورتیں شامل ہیں،مگر ایک الگ ڈھنگ سے!
یہ کرونا وبا کے ابتدائی مہینوں کی بات ہے۔ ہم سب خوفزدہ تھے، گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے تھے ۔ عملی، سماجی سرگرمیاں معطل تھیں۔قیدی، قریب کی چیزوں کے سلسلے میں انتہائی حساس ہوجاتے ہیں۔ برقی، سماجی میڈیا ہماری سب سے قریب ترین چیز بن گیا تھا۔ وہاں جو کچھ ہورہا تھا، اس کے سلسلے میں ہم سب غیر معمولی طور پرحساس ہوگئے تھے۔ خبروں ، تبصروں ، آرا کو کہیں زیادہ توجہ سے دیکھنے لگ گئے تھے ۔ باہر کی دنیا سے رابطے کے اس ذریعے پرہمارا انحصارمعمول سے کہیں بڑھ گیا تھا ۔اسی دوران میں، میں نے محسوس کیا کہ تنقید بہ طور صنف ادب، طنز وتضحیک کی زد پر ہے۔میں نے پہلی بار تنقید پر طنز محسوس نہیں کیا تھا، مگر پہلی بار اس طنز کی کاٹ اوراس کے مضمرات محسوس کیے ۔ یہ لمحہ،جیسے کسی طویل خاموشی کو خیر باد کہنے کا تھا۔
میں نے محسوس کیا کہ طنز وتضحیک اور تنقیدی اختلاف واستفسار میں فرق کی لکیر واضح ہے۔ اختلاف واستفسار ، کسی نکتے پر گفتگو میں شرکت کی، شائستہ اسلوب میں دعوت ہے، جب کہ طنز وتضحیک، ایک قسم کا لسانی تشدد ہے جو دوسروں کو خاموش اور پسپا کرنے کے لیے ،دانستہ اختیار کیا جاتا ہے۔ ایک مصنف، خواہ وہ کسی صنف میں لکھتا ہو، اس کی تحریروں کو جانچنے کا سادہ پیمانہ یہ ہے کہ کیا وہ ہمیں اپنی تخیلی یا علمی دنیا میں، فعال شرکت پر آمادہ کررہا ہے، اور پھر اس شرکت کی وساطت سے ،ہمیں ہماری ہی حقیقی نفسی اور سماجی دنیاکو نئے سرے سے،یا کسی پرانے، آزمودہ طریقے مگر تازہ پیرائے میں کھوجنے کے قابل بنارہا ہے، یا وہ ہمیں ایک جذباتی شدت میں مبتلا کرکے،ہمارے ذاتی فہم کو معطل کرکے،ہمیں اپنا معمول بنا کر،ہمیں کسی کے حق یا مخالفت کی راہ پر ڈال رہا ہے۔ وہ ہماری ذہنی، جذباتی، فکری نمو اور کشادگی میں مددکررہا ہے؛ہمارے ذہنوں،ہمارے دلوں پر چھائی گردہٹانے، ہماری روحوں میں پڑی گرہوں اور ہماری آس پاس کی حقیقی دنیا سے متعلق پیچیدہ سوالوں کے جواب تلاش کرنے میں ہمارا ساتھ دے رہا ہے، یا ہمیں اپنی یا کسی بڑی انا کے مقاصد میں بروے کار لارہا ہے۔ میں اسی ساد ہ پیمانے کو بروے کار لاتے ہوئے،اس نتیجے پر پہنچا کہ تنقید سے متعلق طنز وتضحیک،تنقید سے متعلق بصیرت تازہ کرنے یا نئی بصیرت دینے کے بجائے، اس کے سلسلے میں متشدددانہ رویوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ اس تشدد کا سب سے بڑا نشانہ، خود تنقید ہے۔تنقید کو بہ طور صنف ادب پسپا کرنا، ایک معمولی بات نہیں کہ جسے نظر انداز کرنے کے ہم سب متحمل ہوسکیں۔
اسی دوران میں مجھ پر تنقید کابنیادی کردار ،ایک بار پھر وضاحت سے روشن ہوا۔ ان خطوط کا موضوع ،تنقید کا یہی کردار ہےاور ان خطوط کا مقصد تنقید کے اس کردار کو نئے نقادوں کے لیے واضح کرنا ہے۔ تاہم ان خطوط کی کہانی کا آغاز ،جس طنز وتضحیک کو محسوس کرنے سے ہوا، وہ ان خطوط کی کہانی کے پہلے ہی قدم پر تحلیل ہوگئے ہیں؛ طنزکا جواب طنز اور تضحیک کا جواب تضحیک سےنہیں دیا گیا ۔البتہ تنقید کی اپنی منطق---یعنی دوسروں کو بحث وگفتگو میں فعال ذہنی شرکت کی دعوت--- ان خطوط کی کہانی کے ہر ہر واقعے میں شامل کرنے کی سعی کی گئی ہے اور اس کے سبب کہیں تکرار کی صورت بھی پیدا ہوئی ہے۔ اس کی معذرت!
ان خطوط کے مصنف کی یہ رائے ہے کہ تنقید کی یہ منطق صرف ادب ہی کے لیے نہیں، پورے سماج کے لیے ناگزیز ہے۔کسی سماج سے تنقیدی فکر کے خاتمے کا خواب ، اس سماج میں سیاسی ہی نہیں، سماجی آمریت قائم کرنے والا ہی دیکھ سکتا ہے۔ ادب کاخاموشی سے پڑھا جانا اور گاہے گاہےاس پر سرسری تاثر ، خود ادب اور ہمارے حق میں نہیں۔ ادب اور آرٹ جس نئی، تخیلی دنیا کو خلق کرتے ہیں، اسے اوّل خود سپردگی اور یکجائی کے گہرے احساسات کے ساتھ محسوس کیا جانا چاہیے، مگرپھر اسی دنیا سے ذرا فاصلہ اختیار کر کے، اس پر گہری نظر ڈال کر،اس پر تفصیل سے لکھا جانا چاہیے، تاکہ یہ دنیا، اپنے تمام تر، چھوٹے بڑے، حسین وقبیح ،معمولی و غیر معمولی امکانات و مضمرات کے ساتھ سامنے آسکے ۔ خود سپردگی اوریکجائی کے جذبات بہ یک وقت عاشقانہ اور متصوفانہ ہیں،یعنی اپنے اندر گہری، پر کیف خود فراموشی ، بہ رضا و رغبت کی خود سپردگی اور اسی بنا پر ایک نوع کی تقدیس رکھتے ہیں،اور اسی کا لاشعوری احساس کرتے ہوئے، کئی بار تنقید کو تخلیق کی تقدیس کے مقابلے میں ، دنیوی(profane) اور اسی بناپر حقیر اور غیر ضروری سرگرمی خیال کیا جاتاہےاور سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔نیز کئی بارخود سپردگی و خود فراموشی کی اس عروجی کیفیت سے واپس آنے میں نہ صرف دقت ہوتی ہے ، بلکہ اس کے لیے جنت سےزمین پر پھینکے جانے کی تمثیل بھی استعمال کی جاتی ہے۔ دنیا اورعقل کی مخالفت کی ایک دلیل اسی ثنویت سے ماخوذ ہے۔اگر شاعری وفکشن ، انسانی اخترا ع و ایجاد نہ ہوتے،انھیں وجود میں لانے والا تخیل بشری خصائص کا حامل نہ ہوتااور شعرو فکشن انسانی زبان میں تاریخی وثقافتی طور پر وضع ہونے والی ہئیتوں میں نہ لکھے جاتے ، اور وہ ہماری ہی دنیا کو مخاطب نہ کرتےاور ہماری دنیا ، ان کی ایک ہیئت وپیرائے سے ایک طرح سے اور دوسری ہیئت وپیرائے سے دوسری طرح سے متاثر نہ ہوتی تو پھر تنقید بالکل غیر ضروری تھی۔تنقید ، تخلیق کو انسانی فہم کے مدار میں لے آتی ہےاور تخلیق کوہماری داخلی وخارجی دنیاؤں میں اپنا کردار ، اپنے جملہ امکانات کے ساتھ،ادا کرنے میں مدددیتی ہے۔وہ تخلیق کی تقدیس اور جنت کی نفی نہیں کرتی، انھیں ان کے اصل سیاق میں پیش کرتی ہے۔سب سے بڑھ کر وہ ہمیں یہ سوچنے پر مائل کرتی ہے کہ تقدیس اور دنیویت، جنت اور زمین یا تخیل وتعقل کو ایک دسرے کا ازلی حریف سمجھنے کے حاصلات کیا ہیں اور ان کے درمیان مکالمے کے مضمر ات کیا ہیں؟دنیا میں کسی بھی نوع کی جنگوں سے انسانیت کو کیا ملا ہے اورایک دوسرے کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے سے کیا مل سکتا ہے؟ تنقید کے لیےاس مکھی کی تمثیل بے جا ہے جو گھوڑے کو پریشان کرتی ہے، اس کے لیے اگر کوئی تمثیل موز وں ہوسکتی ہے تو وہ اس سائیس کی ہے جو گھوڑے میں چھپے فنکار کو پہچانتا ہے اور اسے اپنے فن کو دنیا کے سامنے لانے میں مدددیتااور سب سے پہلے سراہتا ہے۔کیوں کہ سائیسی علم دریاؤ ہے۔ بایں ہمہ یہ دعویٰ ہر گز نہیں کہ ان خطوط میں تنقید کے سب مسائل آگئے ہیں۔
کسی زمانے میں نوجوان شاعر کے نام جرمن زبان کے آسٹریائی شاعر رلکے
(Rainer Maria Rilke)
کے خطوط پڑھے تھے۔وہ ہر نئے شاعر کو ضرور پڑھنے چاہییں۔ یہ خطوط لکھتے ہوئے، کہیں لاشعور میں وہ خطوط ضرور موجود تھے۔ خط کی تکنیک ، ایسی بہت سی باتیں، قدرے بے تکلفی اور اپنائیت کے ساتھ کہنے کا موقع دیتی ہے، جو مضمون یا مقالے میں ممکن نہیں ۔پیرو کے ممتاز ناول نگار یوسا
( Jorge Mario Pedro Vargas Llosa )
کے نوجوان ناول نگار کے نام،خطوط بھی پیش نظر تھے۔محبوبوں ،شاعروں ، فکشن نگاروں(یہ دونوں بھی محبوب سے کم نہیں)کوتو بہت خطوط لکھے گئے، سوچا، کیوں نہ راندہ درگاہ سمجھے جانے والے، نقاد کو بھی خط لکھے جائیں ۔
ان خطوط کے منتخب حصے سوشل میڈیا پر شایع کیے گئے۔ ان کی غیر معمولی پذیرائی ہوئی۔ سب احباب اور نوجوان لکھنے والوں کا شکریہ جنھوں نے انھیں پسند کیا اور ان کی اشاعت میں دل چسپی ظاہر کی۔ یہ خطوط شایددو تین سے زیادہ نہ بڑھتے اگرعزیز دوست اور نئے نقاد ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی(جو پہلے خط کے مخاطب تھے) اور ڈاکٹر محمد نصراللہ اصرار نہ کرتےاور دوردراز جگہوں پر بیٹھےنئے دوست تقاضا نہ کرتے۔
ہر خط سے پہلے تخلیقی ادب سےمنتخب اقتباسات شامل کیے گئے ہیں،اس خیال سے کہ یہ خطوط جس ادب کو موضوع بناتے ہیں،اس کے اچھے نمونے برابر پیش نظر رہیں۔ زیادہ تر ادب مگر بعض مقامات پر آرٹ بھی ان خطوط کے موضوع ہے، اس لیے تخلیقی ادب کے ساتھ مصورانہ خاکے بھی شامل کیے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ کتاب کے قارئین ان خاکوں کے ”طلسم صورت و معنی“ کو محسوس کریں گے اور میری طرح سمیرا حماد ملک کو داد دیں گے۔ میں ان کا ممنون ہوں جنھوں نے بہ طور خاص اس کتاب کے لیے یہ خاکے بنائے۔
برادرم افضال احمد کا شکریہ جو اپنے ادارے سے میری کتابیں بڑے اہتمام سے شایع کرتے ہیں۔
ناصر عباس نیّر
لاہور، ۱۵ اگست،۲۰۲۲