urdu-adab-ki-tashkeel-e-jadeed

Urdu Adab Ki Tashkeel-e-Jadeed

Criticism

Published: 2024


یہ کتاب پہلی بار ۲۰۱۶ء میں شایع ہوئی تھی۔ ان سات برسوں میں اس کتاب کے مصنف کا قلم رواں رہا ہے۔ اس کتاب کے مسائل و موضوعات کو آگےبڑھانے کی کوشش بھی کی گئی اور جہاں محسوس ہوا کہ کچھ مسائل پوری طرح زیر بحث نہیں آسکے تھے، ان پر مزید بحث کی سعی بھی کی گئی۔ ایک اعتبار سے اس مصنف کی ہر نئی کتاب کا بیج، اس کی پہلی کتاب ہی میں موجود ہے۔اس کے قلم سے نکلیں سب کتابیں، ایک زنجیر کی کڑیاں ہیں یا ایک مسلسل کہانی کے واقعات ہیں۔ زیر نظر کتاب میں جدید اردوادب کی تشکیل کی کہانی کے واقعات کو ترتیب دینے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کہانی کے زمان و مکاں،انیسویں صدی کے اواخرسے بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے اوائلی برس اور نو آبادیاتی وپس نوآبادیاتی ہندوستان تھے۔کتاب میں جدید ادب کی کہانی کے کبیری کرداروں کے اعمال(یعنی works) اور ا ن اعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیاتھا؛وہ اثرات جو ادب کے موضوع و مواد کے ساتھ ساتھ اس کے اسلوب،تکنیک اور جمالیات پر پڑے،نیز جنھوں نے نئی ادبی اور قومی بحثوں کو جنم دیا۔یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کیسےاردو کے جدید ادب میںمتنوع و کثیر عناصر شامل ہوئے، کیسے یہ ادب،اپنی کلاسیکی وحشت و آزادی اور ایک نوع کی مابعد الطبیعیات سے نکل کر قومیت ، سماجیت اور نفسی سماجیت کے نئے مگر پیچیدہ سوال سے مسلسل دوچار رہا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ ادب معاصر سیاست میں دخیل ہوا اور اس نے بہت کچھ بویا ،اور بہت کچھ کاٹا ؛کیسے اردو ادب میں استعمار کے سلسلے میں مزاحمت و موافقت کے ساتھ ساتھ متبادل بیانیوں کی تخلیق کی کوشش کی گئی اورکیسے مغربی کینن اور جدیدکینن میں فرق کیا گیا اور کیوں کر مقامی کینن کی بازیافت کی مساعی ہوئیں؟ ان سب مسائل کا احاطہ، اس کتاب میں اوراسی مصنف کی بعد کی کتابوں خصوصاً جدیدیت اور نوآبادیات(مطبوعہ اوکسفرڈ،۲۰۲۱ء )میں کرنے کی کوشش کی گئی۔خدا کا شکر ہے کہ یہ مساعی رائیگاں نہیں گئیں۔کئی بار نہایت اخلاص اور پوری محنت سے کی گئی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔آدمی اپنے معاصرین سے لڑ جھگڑ سکتا ہے، تاریخ اور زمانے سے نہیں۔

اس مصنف کے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ اردو میں مابعد نوآبادیاتی تنقید کو باقاعدہ قائم کرنے میں (اس کی بکھری ،منتشر مثالیں ،بلاشبہ پہلے موجود تھیں)،نوآبادیاتی اور نئے نوآبادیاتی عہدکے اردو ادب میں سماجانےو الی مغربی استعماری روح ، اس کی مخفی وبین اور متنوع صورتوں کو خالص علمی ومنضبط انداز میںسامنے لانے کی روش کا آغاز کرنے میں، ان کتابوں کا کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔ اس حصے کی نوعیت وافادیت کاجائزہ لینا، اس مصنف کا نہیں ، اس مصنف کے قارئین اور نقادوں کا کام ہے۔ اس مصنف کے لیے یہ بھی اطمینان کی بات ہے کہ اس کتاب کو قارئین ونقادوں کی خاموشی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ نہ صرف اسے دو قومی اعزازات (باباے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ اور اوکسفرڈ لٹریری فیسٹول ایوارڈ)ملے،بلکہ پاکستان وہندوستان کے سرکردہ نقادوں نے اس پرلکھا۔ اختلاف بھی کیا گیااور اتفاق بھی۔اس کتاب کے بعض قارئین کو یہ اختلاف رہا ہے کہ اس میں اردو ادب کے چند مشاہیر کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اردوادب کی تاریخ نویسی کا غالب رجحان ماضی کی ان ادبی شخصیات کی غیر مشروط مدح سرائی سے عبارت رہاہے،جن کا کچھ بھی حصہ یا کردار قومی شناخت کے قیام میں رہا ہے۔ اس کتاب کے مصنف نے غیر مشروط مدح کی بجائے، سچائی کو غیر مشروط طور پر سمجھنے اور پوری شائستگی اور دلیل و شہادت کے ساتھ،اسے سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔اس ضمن میں رائج و مقبول آرا کو اپنے نتائج کے استباط کی بنیاد نہیں بنایا۔ مثلاً پہلے باب میں مسلمانوں اور انگریزوں کے سیاسی و ثقافتی کردار کو معرض بحث میں لاتے ہوئے، کسی مقبول رائے کو مدنظر رکھنے کی بجائے معقولیت کا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ آپ اس مصنف کے معقولیت کے تصور سے اختلاف کرسکتے ہیں۔اس کے طریق کار اور نتائج سے بھی اختلاف کرسکتے ہیں،مگر اس سے نہیں کہ پوری کتاب میں کسی رائے کی بنیاد مصنف کا اپنایا دوسروں سے اخذ کردہ تاثر نہیں ہے۔ ایک موضوع سے متعلق زیادہ سے زیادہ اور بنیادی مآخذ کو پیش نظر رکھ کر نتائج کا استنباط کیا گیا ہے۔(بلاشبہ ان نتائج کے استنباط میں ایک زاویہء نظر ضرور کارفرما رہا ہےجسے آپ آزادانہ تفہیم کا نام دے سکتے ہیں)۔ یہی طریقہ حالی، شبلی، نذیر احمد ،سرسید، اکبر ،منٹو، میراجی، قرۃالعین حیدر اور انتظار حسین کے ضمن میں اختیار کیا گیا ہے۔ ان سب کے مطالعے میں اس دھاگے کو گرفت میں لینے کی سعی کی گئی ہے کہ اردو ادب نے کس طور،کن اسباب اور کن واضح مقاصد کے تحت، کلاسیکی شعریات سے الگ اور نیا رخ اختیار کیا اور اس میں استعماریت، قومیت، جدیدیت کا کیا کردار رہا ہے۔نیز یہ سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے کہاںہمارے مشاہیر نے استعماری آئیڈیالوجی کی کُھلی یا بین السطور حمایت کی اور کہاں اس سے فاصلہ اختیار کیا اور کہاں اس کے خلاف کھلے لفظوں میں یا بالواسطہ مزاحمت کی۔جدید اردو ادب کی تشکیل میں حصہ لینے والے متون کے افقی اور عمودی مطالعات کیے گئے ہیں۔اس زمانے کی تاریخی صورت حال ، سماجی و ثقافتی حالات کے ساتھ ساتھ ادبی رجحانات کا نقشہ پیش کیا گیا ہےمتون کی تمام ممکنہ معنوی سطحوں کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کے پیش لفظ میں متبادل بیانیے کی بحث میں چند سطروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔باقی متن وہی ہے جو پہلی اشاعت میں تھا۔ترتیب ابواب میں تبدیلی کی گئی ہے۔پہلی اشاعت میں شبلی کی تنقید کے تجزیے پر مبنی باب آخر میں تھا، اسے سرسید واکبر پر باب کے بعد شامل کیا گیاہے۔

اردو ادب کی تشکیل جدید کی پہلی اشاعت، ۲۰۱۶ء میں اوکسفرڈ یونیورسٹی کراچی سے سامنے آئی تھی۔ تازہ اشاعت، سنگ میل پبلی کیشنز سے سامنے آرہی ہے۔ میں برادرم افضال احمد کا ممنون ہوں جو میری کتابیں نہایت اہتمام سے شایع کررہے ہیں۔

ناصر عباس نیّر