Us Ko Ik Shakhs Samajhna Toh Munasib Hi Nahi

Us Ko Ik Shakhs Samajhna Toh Munasib Hi Nahi

Criticism

Published: 2024


میں نے یہ سوال خود سے کیا تھا کہ کسی ایک مصنف پر پوری کتاب لکھنے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ اسی سوال میں ایک اور سوال بھی مضمر تھا کہ ہم مصنفین کی طویل فہرست میں سے کسی ایک مصنف کا انتخاب کس بنیاد پر اور کیوں کرتے ہیں؟ میراجی پر اپنی کتاب کی اشاعتِ ثانی کا حرف اوّل لکھتے ہوئے ،ایک دفعہ پھر یہ سوال میرے سامنے ہے۔ اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہےکہ ہم ، سب چیزوں، سب مصنفوں کو نہ تو پسند کرسکتے ہیں، نہ ان پر لکھ سکتے ہیں اور جنھیں پسند کرتے ہیں، ان سب کے لیے پسندیدگی کےجذبات کی شدت بھی یکساں نہیں رکھتے۔کچھ کے ساتھ ہم چند قدم چلتے اور رک جاتے ہیں اور بعض کے ساتھ لمبی مسافت بھی ہمیں مختصر محسوس ہوتی ہے۔ہماری زندگی کا سچ یہ ہے کہ ہم منتخب لوگوں، منتخب چیزوں اور منتخب مصنفوں اور چیدہ کتب کی رفاقت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔کچھ کے ساتھ واقعتاً جیتے ہیں اور باقیوں کے ساتھ ہمارا تعلق احساس، خیال اور یادداشت کا ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی ایک مصنف کی ایک یا چند کتابیں تو ہمیں پسند ہوں، باقی نہیں۔ مجھے احساس ہے کہ اوپر اٹھائے گئے سوال کا یہ جواب عمومی ہے۔ ادب سے لگاؤ رکھنےو الا ہر شخص یہی کرتا ہے۔تاہم منتخب مصنفوں یا منتخب کتب کو پڑھتے رہنا، ایک بات ہے، ان میں سے کسی ایک یا دو پر جم کر لکھنا دوسری بات ہے۔یہ ایک ہی تعلق کے دودرجے نہیں، تعلق کی دو قسمیں ہیں۔بالکل اسی طرح جس طرح پڑھنا اور لکھنا، دو الگ قسم کی سرگرمیاں ہیں۔

کسی مصنف پر مکمل کتاب لکھنے کا فیصلہ،انفرادی ہے؛خاص طور پر اس وقت جب کوئی کتاب کسی سندی ضرورت کے تحت نہ لکھی جارہی ہو۔ اس فیصلے سے ایک شخص ، درجنوں مصنفوں میں اپنے پسندیدہ---یا اپنی نظر میں اہم ترین مصنف کا اعلان ہی نہیں کرتا،بلکہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو ایک مصنف کی تفہیم ،تحسین اور کچھ صورتوں میں اس سے بحث مباحثے ، یہاں تک کہ جھگڑے میں بروے کار لانے کا فیصلہ بھی کرتا ہے۔ اپنا وقت اور بہترین صلاحیتیں، کسی ایک کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہوتا۔ آدمی اپنے وقت کے یوں ہی بتائے جانے بلکہ ضائع کیے جانے کو اس شدت سے محسوس نہیں کرتا، جس شدت سے وہ اپنے وقت کو کسی ایک کے لیے مختص کرنے کو محسوس کرتا ہے۔ یہ ایک آدمی کی کسی اور کے آگے محض سپردگی نہیں ہے، یہ بعض چیزوں کی غیر معمولی اہمیت کا احساس کرنے کا وہ لمحہ ہے جو آدمی کی زندگی میں بار بار نہیں آتا۔ یہ ان چند باتوں کی اصل اور ان کے معنی ومعنویت کا جاننے کا موقع بھی ہے، جنھیں کوئی شخص اپنی تنہائی میں ، اپنے تدبر کو بروے کارلانے کے باوجود نہیں سمجھ سکتا۔یہ باتیں یکسر شخصی نوعیت کی بھی ہوسکتی ہیں اور غیر شخصی، ادبی تاریخی ، ادبی تنقیدی، فلسفیانہ بھی ہوسکتی ہیں،اور بہ یک وقت دونوں بھی۔

ہم سب داخلی دنیا رکھتے ہیں ،اوراس داخلی دنیا کا ربط ضبط اس دنیا سے مسلسل رہتا ہے، جسے کارل پاپر تیسری دنیا کہتا ہے،اور کین ولبر (Ken Wilber)اجتماعی داخلی (Collective Interior) کہتا ہے۔ سادہ لفظوں میں وہ سب کتابیں ، متون جوآدمیوں کی داخلی دنیاؤں کی پیداوار ہیں، مگر جو وجود میں آنے کے بعد ایک الگ وجود کی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں،اور بہ طور وجود ہی دوسری کتب سے رشتے میں بند ھ جاتی ہیں ، ہم انسانوں کی داخلی دنیا، کتب و متون کی اس دنیا سے ربط ضبط ہی نہیں رکھتی ، بلکہ اس کی وسعت، تنوع کے ساتھ ساتھ اس کے سوالوں کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ وہ کتب ومتون کی اس دنیا کی کتنی سیر کرتی ہے،اور اس دنیا کے سوالوں کوکتنا سنجیدہ تصور کرتی ہے۔بعض لوگ ساری عمر محض شخصی سوالوں سے الجھتے گزاردیتے ہیں۔ان کے لیے کتب ومتون کی دنیا کے سوال اہمیت نہیں رکھتے۔ ایک مصنف پر مکمل کتاب اسی وقت لکھی جاسکتی ہے، جب ایک چنگاری اگر شخصی سوال کی ہے تو کئی انگار، کتب ومتون کی دنیا کے ہوں۔آدمی اگر اجتماعی داخلی دنیا سے غافل رہے تو پھر اس کے پاس اپنے چند الجھے جذبات، اندیشے اور پچھتاوے ہی بچ رہتے ہیں۔

میراجی پر کتاب کا ایک سبب تو بالکل شخصی تھا، کم وبیش وہی جو مجید امجد کے ضمن میں تھا۔ حاشیے پر دھکیلے گئے لوگوں سے ہم دلی کاتعلق اور ان کے لکھے ہوئے ادب کی وہ انفرادیت جس سے مجھے ایک دلی لگاؤ مسلسل محسوس ہوتا ہے۔ جنھیں ادبی تاریخ میں، محض مخصوص ادبی کینن کے اجارے کے سبب، یا ادبی سماجیات کی سیاست کے تحت حاشیے پر دھکیلا گیا ہو،ان کے ہاتھوں میں ایک استغاثہ ہوتا ہے۔ میںنے ان دوکتابوں میں بس ان کا استغاثہ پڑھنے اور اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں از سر نو لکھنے کی کوشش کی ہے۔ مجھے انھیں انصاف دلانے کا دعویٰ نہیں ، صرف انھیں سمجھنے سمجھانے کی ادنیٰ سعی ہے۔ تاہم یہ سعی، میراجی کی شخصیت اور ان کی جملہ نظم ونثر سے متعلق کچھ بنیادی سوالوں کی روشنی میں کی گئی ہے۔ میراجی، اپنے نام کی تبدیلی، اپنی وضع قطع ، طور اطوار اور خود اپنی مبہم نظموں کے سبب اردو دنیا کے لیے ایک چیلنج بنے۔جس زمانے میں اردو ادب کی لغت وشعریات میں قومیت کے مخصوص تصورات گہرے طورپر اترے تھے ، میراجی نے ایک الگ راستہ اختیار کیا۔ وہ زمانے کے سادہ ترجمان نہیں بنے، زمانے کی غالب روش سے منحرف ہوئے،اور ادب کی وسیع دنیا جس میں ماضی و حال، جغرافیہ وقوم کی تقسیم نہیں تھی، اس کی سیر کو نکل پڑے۔ان کے ہاتھ میں اگرکوئی چراغ تھا تو وہ انفرادی نگاہ اوراس کی عطا کردہ آزادی سے ادب کی دنیا کو دیکھنے کا تھا۔(ایک زاویے سے یہ کتاب میری اس سے پہلے شایع ہونے والی کتاب اردو ادب کی تشکیل جدید کا تسلسل بھی ہے،جس میں’’ اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں ‘‘ ہی کے عنوان سے باب شامل تھا۔) ان کے اپنے طرز زندگی نے انھیں جینے کی مہلت کم دی،مگر انھوں نے صحیح معنوں میں اپنی تحریر کو اپناگھر ہی نہیں بنایا، اسے اپنا ملجا وماویٰ بھی بنایا۔ انھوںنے اپنے وجود کی سب توانائی،ساری تاریکی، ساری روشنی کو اپنے قلم کی نوک پرمرتکز کردیا تھا۔یہ کتاب میراجی کی روح اور ان کے ادب کی روح میں اترنے کی بس ایک کوشش ہے۔ اس کی پہلی اشاعت عام قارئین اور اہل نظر کی توجہ کا مرکز بنی۔ میں سب کا ممنون ہوں جنھوں نے اس پر لکھا۔ گیتاپٹیل ، عارف وقار اور بلال تنویرکے انگریزی میں تبصرےخاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

پہلی اشاعت اوکسفرڈ سے سامنے آئی تھی۔ دوسری اشاعت سنگ میل سے آرہی ہے۔ برادرم افضال احمد کا شکریہ

ناصر عباس نیّر