میں نے کیوں لکھنا شروع کیا ؟

اشاعت: ۲۵ جولائی ۲۰۲۴


انھی دنوں ریڈیو کے مختلف پروگراموں میں بھی خط لکھے۔ ریڈیو پر اپنا نام سننے کا باقاعدہ نشہ تھا۔ تب ریڈیو ہر جگہ اور ہر وقت تھا۔اکیلا پی ٹی وی تھا ۔ ٹی وی بھی کسی کسی کے پاس ہوا کرتا تھا ۔ اس کی نشریات بھی شام سے شروع ہوتیں اور رات بارہ بجے ختم ہوجایا کرتیں۔

یہ احساس کہ ریڈیو پر میرا نام ہزاروں ، لاکھوں لوگ سن رہے ہیں، عجیب سرشار کردینےو الا ہوتا۔ میرے لکھنے کے عمل کو جاری رکھنے میں ، اس سرشاری کاایک کردار ہے،مگر ایک چھوٹا سا کردار۔ بڑے کردار اور تھے۔ انھی دنوں کئی ریڈیو ڈرامے سنے، جن میں سے کچھ کی کہانیاں اب بھی یاد ہیں۔

جب ایف ایس سی میں پہنچا تومختلف بک سٹال پرکچھ ڈائجسٹ دیکھے۔ ان میں خط لکھے۔ پھر انھی ڈائجسٹوں میں کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ تب میری عمر اٹھارہ انیس برس کے قریب تھی۔

گزرے دنوں کے واقعات وتجربات کو باریک بینی سے دیکھتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ رسالے اور ڈائجسٹ میرے لکھنے کا محرک نہیں تھے، میرے لکھے کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ تھے ۔

جن دنوں میٹرک میں تھا، مجھے کچھ جذباتی دھچکے لگے ۔اس عمر میں سب ہی محبت کا ’تلخ شیریں ‘ تجربہ کرتے ہیں(بعد میں یہی تجربے ’روکھے- المناک ‘زیادہ ہوتے ہیں)۔ یہ تجربہ بھی تھا مگر اس کے سوا بھی بہت کچھ تھا۔
بچپن گزر گیا تھا، لڑکپن بھی آخری دموں پر تھا۔ اندر ،باہر ، گھر ، سکول ہر جگہ تبدیلی محسوس ہورہی تھی ۔ ان تبدیلیوں کا اثر زیادہ اور ان کا فہم نہ ہونے کے برابر تھا۔ایک عجب انتشار سا تھا۔

گھر، سکول، آس پاس کی دنیا میں جو پہلے معمول تھا، وہ اب اعصاب شکن محسوس ہونے لگا تھا۔ میں کسی کو اپنی حالت وکیفیت میں شریک نہ کرسکا ،حالاں کہ تب کئی دوست تھے۔ ایک سبب تو طبیعت کا شرمیلا پن تھا، دوسرا سبب یہ احسا س تھا کہ دوسرے آپ کے رازوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے؛ وہ اکثر یہ بوجھ سرعام پھینک دیا کرتے ہیں۔

اس کا تجر بہ لڑکپن ہی میں کئی بارہوچکا تھا ۔ نیز ایک اور بات بھی شدت سے محسوس ہوا کرتی ۔ اسے اب وضاحت سے بیان کرسکتا ہوں۔یہ کہ جب آپ کسی صدمہ انگیز حالت میں ہوتے ہیں تو آپ کے لیے معمول کی زبان ناکارہ ہوجایا کرتی ہے۔ آپ ایک نئی ٹوٹی پھوٹی مگر آپ کی حالت کے لیے مکمل طور موزوں و مستند زبان ایجاد کرتے ہیں۔ اسے دوسرے نہیں سمجھ پاتے۔ وہ آپ سے پہلے اکتاتے ہیں ،پھر آپ کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ چناں چہ میں خود میں مزید سمٹ کر رہ گیا۔

ان صدموں کے نتیجے میں، تنہائی، خاموشی، بیگانگی اور اداسی کے تجربے ہوئے، ہیبت ناک تجربے ! انسانی رشتوں اور ان کی نفسیات کی انتہائی پیچیدہ گتھیوں کا احسا س ہوا ۔وحشت کا بے حد مبہم مگر قوی احساس بھی، انھی دنوں ہوا۔ بے خوابی بھی انھی دنوں شروع ہوئی، جو آج تک چلی آتی ہے۔

مجھے محسوس ہونے لگا کہ آس پاس کے لوگوں ، دوستوں ، ہم جماعتوں ، گھر والوں ،اساتذہ کے علاوہ بھی ایک دنیا ہے۔ بعید ، مثالی مگر وہم وخیا ل کی دنیا۔اس میں ایک طلسماتی کشش محسوس کیا کرتا ۔اکیلا کھیتوں ، گلیوں،سڑکوں پر پھرا کرتا ۔رات کے وقت سب سوئے ہوئے ہوتے ، میں تنہا جاگ رہا ہوتا۔ مسلسل سوچتا،دیر تک سوچتا۔ یادیں کم تھیں اور جو تھیں وہ کرب ناک تھیں، ان سے گریز کرنے کی کوشش میں مزید ان پر سوچتا، پھر ان سے نکلنے کی سعی کے طور پر مستقبل سے متعلق سوچتا؛ ایک فنتاسی تخلیق کرتا۔ سوچنا، تصور کرنابہ یک وقت کرب ناک اور لذت انگیز تھا۔

اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ اس سب میں میرے لیے نیا پن اور کچھ کچھ اسرار ضرور تھا مگر یہ صر ف مجھ سے مخصوص نہیں تھا۔ میں نتیجہ اخذ کرنے کی حماقت نہیں کرسکتا کہ مجھے تنہائی، اداسی، وحشت اور ان سے وابستہ ہیبت کے سپرد کرکے قدرت یا تقدیر مجھ سے کوئی خصوصی سلوک کررہی تھی اورمیں کوئی منتخب فرد تھا۔

نوجوانی میں اکثر کا سابقہ ان کیفیات سے پڑتا ہے۔ تاہم میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ جو نوجوان اسباب کے کسی بھی سلسلے کے تحت تنہا و خود نگر ہو جاتے ہیں، اپنی زندگی کو مصیبت زدہ خیال کرتے ہیں،اور حقیقی زندگی کے متوازی، ایک تخیلی زندگی شرو ع کرتے ہیں، انھیں قدرت یہ موقع ضرور دیتی ہے کہ وہ خود کو دریافت کریں۔ کوئی بھی مصیبت، جسے پوری شدت سے محسوس کیا گیا ہو، وہ خود کو دریافت کرنے،زندگی کے رخ اور معنی تک رسائی نہ سہی، ان کی جستجو کے لیے تڑپ ضرور پیدا کرتی ہے۔ میں خدا کا شکراداکرتے ہوئے کہہ سکتاہوں کہ میں نے یہ موقع ضائع نہیں کیا۔

ایک عجیب بات یہ ضرورتھی کہ بے خوابی کے لمحوں میں جو قسم قسم کی فنتاسی پیدا کر لیا کرتا تھا، وہ میری روزمرہ کی دنیا سے مختلف ہونے کے باوجود، روزمرہ کی دنیا ہی کی چیز ہوا کرتی تھی ۔ اب میں اچھی طرح سمجھ سکتاہوں کہ روزمرہ دنیا میں جو مشاہدات، تجربات ادھورے رہتے، یا حسب توقع نہ ہوتے، ان میں دراصل کئی رخنے رہ جایا کرتے تھے، میں انھی رخنوں کو پر کرنے کی کوشش میں فنتاسی تخلیق کیا کرتا تھا۔

روزمرہ دنیا کی آب وخاک وباد و آتش، میری تخیلی قلم رو میں شامل رہتی۔ سچ یہ ہے کہ اردگرد کی حقیقی دنیا ہی کو اپنے خیال و تصور میں لا کر نہایت باریک بینی سے دیکھا کرتا۔مگر یہ بھی سچ ہے کہ حقیقی دنیا ، خیال و تصور میں اپنی مکمل صورت میں کبھی نہیں پہنچ پاتی، چناں چہ وہ کئی بار خیال وتصور کے طویل اور انوکھے سلسلوں کو تحریک دینے کا باعث ہو اکرتی ہے۔اگر یہ بات میرے تجربے میں نہ آتی تو ادب میری زندگی کا ناگزیر حصہ نہ بن پاتا۔ میں نے آگے چل کر جو کچھ بھی لکھا، اس میں حقیقی و تصوری و تخیلی زندگی کا یہ رشتہ ظاہر ہوا ہے۔

میرے لیے ادب، حقیقی زندگی کو باریک بینی سے دیکھنےکا ذریعہ بنا ہے،لسانی وہیئتی و جمالیاتی ذریعہ.... زندگی اور خود اپنے تمام تر تضادات وتناقضات کے ساتھ۔

ّ(میرےافسانوں کےزیرطبع کلیات میں شامل‘‘میری کہانی کی کہانی:میری زبانی‘سےاقتباس)
ناصر عباس نیّر
۲۳ جولائی ۲۰۲۴ء