’’یہ جاہ دنیا کروں گا کیا میں‘‘ :آفتاب اقبال شمیم

اشاعت: ۲۸ جولائی ۲۰۲۴


کل آفتاب اقبال شمیم رخصت ہوئے۔ اردودنیا سوگوار ہے۔ وہ جدیدشاعری ، خصوصاً نظم کے ممتاز ترین شاعر تھے۔ ان کے یہاں جدید شاعری ، ایک اپنا الگ مفہوم متعین کرتی تھی۔اردو میں جدید شاعری کے ایک سےز یادہ کینن ہیں۔ راشد، مجید امجد، میرا جی اپنی اپنی جگہ کینن ہیں۔

ان کے بعد ایسے شاعر کم آئے جنھیں ہم کینن ساز کہہ سکیں۔ وہ راشدو میراجی و امجد کے کینن سے استفادہ کرنے والے، انحراف وبغاوت کرنے والے ، اسی میں ، اسی کی طرز پرجدت لانے والے ہیں۔ شاعری کے گنجان نقشے میں اپنے لیے ایک الگ اور ممتاز جگہ تخلیق کرلینا ، جن دوتین شاعروں کو یہ شرف نصیب ہوا، ان میں آفتاب اقبال شمیم بھی شامل ہیں۔

انھیں عمومی طور پر سراہا ضرور گیا، پڑھا کم گیا۔ زیر بحث اس سے بھی کم لایا گیا۔ ان کے جانے کے سوگ میں ، ان کی شاعری کی قدر نہ کرنے کا ملال بھی شامل ہے۔

آفتاب اقبال شمیم کا شعری کلیات ۲۰۱۶ ء میں’’نادریافتہ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ عنوان ہی میں ایک تاسف اور ایک ترغیب بہ یک وقت شامل تھی۔ تاسف اس بات کا ’’فردا نژاد‘‘، ’’زید سے مکالمہ ‘‘، ’’گم سمندر ‘‘،’’میں نظم لکھتا ہوں‘‘، ممنوعہ مسافتیں‘‘ اور ’’سایہ نورد‘‘جیسی کتب کا خالق اب تک نادریافت چلا آتا ہے۔ ترغیب ، شاعری کی ایک نئی دنیا کو دریافت کرنے کی تھی۔ سچ یہ ہے کہ تاسف غالب رہا، ترغیب کا م نہ آسکی۔ سعید احمد اس بات کی گواہی دیں گے۔ کچھ مضامین ضرور لکھے گئے ،مگر اس درجے کا اور اس تواتر سے کام نہیں ہوسکا کہ وہ قارئین کے عمومی حافظے کا مستقل حصہ بنتے۔

شمیم صاحب کی ایک کتاب کا نام ’’ممنوعہ مسافتیں ‘‘ ہے۔اس عنوان کی کوئی نظم نہیں ہے۔دراصل ان کے لیے شاعری کی دنیا کا سفر، ممنوعہ مسافتیں طے کرنے کا عمل ہے۔ کم از کم جدید شاعری ، ممنوع دنیا میں بے دھڑک داخل ہوئے بغیر ، اور ایک قسم کی نافرمانی کا ارتکاب کیے بغیر،نہیں لکھی جاسکتی۔ یہ ممنوع دنیا : سیاست، نفس انسانی، تاریخ ، اساطیر تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس دنیا میں سفر آسان نہیں۔ ممنوع دنیا میں سفر کا مطلب، ان سب کی مستقل رنجش و ناراضی وغصہ ہے، جنھوں نے اس سب کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ اسی لیے جدید شاعری ، مضطرب زیادہ کرتی ہے، تسکین کم دیتی ہے۔ اس کی جمالیات ، خروش کو نظرا نداز کرنے یا اسے ختم کرنے کی نہیں، بڑھانے کی ہے۔

شمیم صاحب کی پہلی کتاب ’’فردا نژاد ‘‘ کا آغاز ’’آدم زاد‘‘ کے عنوان کی نظم سے ہوتا ہے۔ وہ غالب کی مانند حمد سے نہیں، شکوے سے آغاز کرتے ہیں۔دیکھیے، یہ شکوہ کس کس سے ہے؟ ایک شاعر اپنا اورنوع انسانی کا مقدمہ کس کس کے روبر ، کس زبان اور پیرائے میں رکھتا ہے؟
زمیں کی تنگیوں کو اپنی بخشش سے کشادہ کر
کہ سجدہ کرسکوں
’’یہ کیا کہ میرے حوصلوں میں رفعتیں ہیں
اور گرتا جارہا ہوں اپنی فطرت کی نشیبوں میں
........
مجھے بھائی مرے نیلام کرنے جارہے ہیں
تک رہا ہے تو مجھے معذور آنکھوں سے
یہ کیسا شہر ہے
جس کی ثقافت کی مچانوں سے
مجھے مارا گیا ہے
.......
خداواندا!
مجھے طائر ، شجر ، پربت بنادے
یا مجھے ڈھادے
کہ دوبارہ جنم لوں اپنی بے مشروط آزادی کی خواہش سے ‘‘

آفتاب اقبال شمیم کو آدم زاد کے ساتھ زمیں زاد ہونے کا بھی گہرا إحساس تھا۔ طائر، شجر، پربت زمین زاد ہیں۔ فرق یہ کہ انھیں اس کی مسلسل یاددہانی کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

آدم زاد کے طور پر شناخت ، انھیں معاصر دنیا میں شناختوں کی سیاست سے الگ کرتی تھی۔ زمیں زاد کی شناخت ،انھیں تاریخ و اساطیر کے مسلط کیے گئے جبر سے آزادی کا إحساس دلاتی تھی۔آزادی ،انھیں سب سے زیادہ عزیز تھی۔ ایک آدمی ہونے ، آدمی کے طور پر اپنی زمین پر اپنی مرضی اور شرطوں سے جینے کی آزادی۔
اپنے جوہر میں
میں پورا فرد ہوں ،وہ مرد ہوں
جس مرد کی پہلی محبت اور منگیتر ہے آزادی
(میں پورا فرد ہوں)

وہ جانتے تھے کہ آدمی ہی ، آدمی ہونے کی آزادی میں حائل ہے اور دوسری زمینوں پر رہنے والے ہی ، زمین کو جہنم بنایا کرتے ہیں۔ اس لیے شاعر آدمی کے دکھ ،المیے (ان کی ایک نظم کا عنوان ہی ’الف المیہ ‘ ہے) اور خواب ہی لکھ سکتا ہے۔ وہ خیا ل کی ایک کائنات تعمیر کرسکتا ہے۔ شمیم صاحب نے یہ کائنات واقعی تعمیر کی ۔ ہم کچھ دیر ہی سہی، اس شعری کائنات میں باقاعدہ قیام کا تجربہ کرسکتے ہیں۔
میں اپنی مٹی کی خواب گاہوں سے
ڈھل کے نکلاہوا وہ پیکر ہوں
جس کو کچھ آگ ،کچھ نمی اور کچھ ہوا
اپنی اپنی شرطوں پہ
ایک جیون گزار لینے کا وقت دیتے ہیں
کل جو گزراہے،کل جو آئے گا
میرے حدو حساب میں ہے
میں راج مزدور زندگی کا
خیال تعمیر کررہا ہوں
میں آدمی اور کائناتوں کے ایک ہونے کا
خواب تعبیر کررہا ہوں
(’خیال تعمیر کررہاہوں‘)

شمیم صاحب کے کلیات کا آغاز، شکوے سے ، جب کہ اختتام دنیا اور جاہ ِ دنیا سے بے نیاز ی کے اظہار پر ہوتا ہے۔
یہ جاہ ِدنیا کروں گا کیا میں
تمھی سنبھالو اسے ، چلا میں